Hunza News

دن کو شرم رات کو بغل گرم

Share This Post

[author image=”http://hunzanews.com/wp-content/uploads/2014/07/02.png” ]ہدایت اللہ اختر[/author]

دن کو شرم رات کو بغل گرم

گلگت بلتستان کے باسی آج کل ایک لفظ سے بہت مانوس ہیں ۔۔مانوس تو میں بھی ہوں پر اس کی بھول بھلیوں کو آج تک نہ سمجھ سکا ممکن ہو کہ قارئین میں سے کسی کو سمجھ ہو اس لیےء سوچا کہ چندسطور لکھ کر بذریعے اخبار پہنچانے کے لیےء حوالہ ڈاک کروں۔۔معلوم نہیں کہ ان الفاظ کو اخبار والے اپنے مشہور اور ہر دلعزیز اخبار میں جگہ دیتے ہیں یا اسے فضول اور بے تکی سی لکھایئ سمجھ کر ردی کی نذر کر دینےمیں کویئ عار محسوس نہ کریں۔۔ کیونکہ ان اخبار والوں کے بھی اپنے اپنے پیکیج ہیں جن میں پسند اور نا پسند سر فہرست ہے لیکن اتنا یقین ہے کہ ان اخباروں میں ضرور جگہ ملے گی جو اس بیماری سے مبرا ہیں ایک بات کی خوشی یھی ہے کہ اگر پرنٹ میڈیا میں جگہ نہ بھی ملے ۔ تو کسی آن لائن اخبار میں کہیں نہ کہیں جگہ مل ہی جاتی ہے ۔۔ اگر ایسا بھی نہ ہو تو اپنا ٹیوٹر اور فیس بک کی وال تو ہے ہی ہے جہاں ہم اپنے خیالات کو شیئر کرکے سکھ کا سانس لیتے ہیں کہ چلو یار ہم نے تیر مار ہی لیا چاہےء باتیں بے تکی اور اغلاط سے بھری ہویئ ہوں۔ اخبار والوں کو اس سے کیا لینا دینا ہے ان کا کام تو پسند اور نا پسند ہے۔۔۔ ایک اخبار کے مالک سے ملاقات ہویئ علیک سلیک کے بعد اس کے اخبار سے متعلق گپ شپ ہویئ تو موصوف مجھے کہنے لگے کہ آپ ہمارے اخبار میں لکھیں پر ایک بات کا خاص خیال رکھیں کہ آپ کے مضمون میں حکومت کے خلاف کویئ بات نہ ہو۔۔۔تو جناب یہ اخبار کا مالک شاید مجھے پکیج دے رہا تھا جس کی مجھے کافی دیر بعد سمجھ آیئ۔۔۔جی ہاں پیکیج پیکیج اور پیکیج۔۔۔دوران ملازمت سے لیکر اب تک مجھے کءی پیکیج سے واسطہ پڑا ۔۔ایک زمانہ تھا کہ ہر چیز اصل اور خالص مل جاتی تھی لیکن جب سے ملاوٹ کا دور آیا ہے پیکیجیز کی بھر مار ہویئ ہے۔اب تو اصلی چیز بھی مل جاےء تو اس پہ بھی شک ہونے لگتا ہے جب تک اصل چیز کے ساتھ کویئ پیکیج شامل نہین ہوتا اب تو ہم نے پیکیج ہی کو اصل سمجھا ہوا ہے ۔۔ تبھی تو ہر کمپنی اپنی پراڈکٹس کے ساتھ پیکیج کا اعلان ضرور کرتی ہے۔۔۔۔خاص کر مو بائل کمپنیاں تو پیش پیش ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو ایسے ایسے نائٹ پیکیجزز دے رکھے ہیں کہ کیا مجال کہ یہ نوجوان رات کو نیند سے لطف اندوز ہوں ان کی نیند اڑ چکی ہوتی ہے بلکل اسی طرح پیکیج کے لفظ نے میری نیند بھی اڑادی ہے اسلےء نہیں کہ یہ نائٹ پیکیج یا انعامی پیکیج ہے مسلہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسا پیکیج ہے کہ اس میں جو مراعات پہلے سے موجود تھیں ہر نےء آنے والے پیکیج سے ان مراعات میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے اور یلکل وہی معاملہ ہے جیسے موبائل سے چوری چھپے آپ کے بیلینس سے مختلف کٹوتیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اور آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب اور کیسے آپ کا بیلینس کم ہوا ۔جی ہاں میں جس پیکیج کی بات کررہا ہوں وہ گلگت بلتستان پیکیج ہے۔۔آزادی سے پہلے والے پکیجیز کو ایک طرف چھوڑتے ہوےء اب تک کا جائزہ لیا جاےءتو پتہ چلتا ہے کہ جب گلگت بلتستان کی پراڈکٹ پاکستانی مارکیٹ میں متعارف ہویئ تو یہ خالص اور اصل شکل میں موجود تھی۔۔۔ جو کشمیر پراڈکٹ کہلاتی تھی لیکن ہوا کیا اس کشمیر پراڈکٹ کو اسلام آباد نامی کمپنی نے اشتراکی بنیاد پر اپنے دیگر پراڈکٹ کے اندر شامل کر کے اسے امور کشمیر گلگت بلتستان کے لیبل کے ساتھ دنیا کی مارکیٹ میں متعارف کرایا ۔۔۔۔کچھ عرصے بعد ایک اور پیکیج آیا جس کے تحت گلگت بلتستان کا نام شمالی علاقہ جات متعارف ہوا۔۔۔یعنی اس پیکیج میں نام کی شناخت بھی ختم ہویئ ۔۔۔نیء پراڈکٹ نیا نام ۔۔۔ جب کمپنی کسی پیکیج کو شروع کرتی ہے تو لوگ ان پیکیجیز سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں یہاں بھی ایسا ہوا چند لوگ پیکیجیز کے ایسے عادی ہوگےء کہ ان کے بغیر ان کاگزارہ کہاں ہو سکتا تھا ۔۔۔۔پھر کیا ہوا۔۔1971 میں جب اسلام آباد کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر تبدیل ہوا تو اس نے ایک ایسا پیکیج یہاں متعارف کرایا جس کے باعث یہاں موجود ریاستی باشندگی کی مراعات بھی چھن گیئ ۔۔۔۔ قارئین یہاں ایک چیز کی وضاحت کردوں کہ میں کمپنی کا لفظ کیوں استعمال کر رہا ہوں میرے محترم اور باشعور قارئین بات یہ ہے کہ پیکیجیز تو فروخت کرنے والی چیزوں اور اپنی فروخت کو بڑھاوا دینے کے لیے کمپنیاں متعارف کراتی ہیں اور مختلف چیزیں پیدا کر کے بازار میں فروخت کے لیے پیش کرتی ہیں ۔۔گلگت بلتستان کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے اس کو بکاو مال سمجھا گیا جس کی جو مرضی چلی اس نے ایسا ہی اپنے فائدے کا پیکیج متعارف کرایا تو ایسے میں جی بی کو اسلام آباد کی پراڈکٹ اور اسلام آباد کو کمپنی نہ کہا جاےء تو پھر کیا کہا جاےء۔۔۔۔۔ یوں چلتے چلتے 2009 کا پیکیج یہاں متعارف ہوا ۔۔۔اس پیکیج کے آنے کے بعد یہاں کے لوگون سے بہت کچھ چھن گیا ۔۔اسلام آباد کمپنی نے ایسا پیارا اور دلکش پکیج کا لیبل چسپاں کر دیا کہ کہ وہ لوگ جو پہلے ہی سے پکیجیزز سے فائدہ اٹھا رہے تھے وہ جھوم اٹھے اور بغیر کسی چوں چرا کے جلد ہی قبول کیا۔کیوں نہیں کرتے وجہ ہر ذی شعور جانتا ہے کسی تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں ۔۔بس یوں سمجھیں کہ اس پیکیج کے بعد لوگوں کو دن میں بھی تارے نظر آنے لگے اور اب تک نظر آتے ہیں ۔اب آپ یہ بھی پوچھینگے کہ وہ کیسے تو قارئین آپ لوگ اتنے بھی ناسمجھ نہیں کہ اس بات کو نہ جان سکو کہ انسان کو دن میں تارے کب نظر آتے ہیں آج کے اخبار میں ایک سیاسی نمائندے کا بیان پڑھا جس میں وہ یہ بتا رہے تھے کہ نیا پیکیج جو جی بی کے لیےء تیار ہوا ہے اس میں فراڈ کیا جا رہا ہے بے چارہ کتنا سادہ ہےکہ لوگوں کو خبردار کر رہا ہے اب اس بے چارے کو کون بتاےء کہ اے اس دیس کے غریب اور مظلوم باسیو جو نیا پیکیج آرہا ہے وہ آپ کے لےء نہیں ہے وہ تو پھر ان چند مراعات یافتہ لوگوں کے لیے ہے جو صوبہ کے نام پر اپنی دکانداری چمکانے اور اپنی مراعات میں اضافے کے لیے ایسے نام نہاد پکیجیزز کو اپنے لیے راہ نجات سمجھتے ہیں جو کسی بھی لحاظ سے خطے کے مفاد میں نہیں یہاں کے باشعور لوگ گلگت بلتستان کو اس کی ا صل شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں اور ایسے تمام پکیجیز کو رد کرتے ہیں جن سے ان کو دن میں تارے نظر آتے ہوں اور مستقبل میں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کو اپنی ماں کا دودھ بھی یاد اےء ۔اسلیے ان پکیجیز کا سوچ سوچ کر ہر با شعور کی نیند اڑی ہویئ ہے سواےء انکے جو اسلام آباد کے مراعات یافتہ ہین جو عوام سے جھوٹ بولتے ہیں ان کو سہانے خواب دکھاتے ہیں ۔۔۔لیکن درپردہ کہانی کچھ اور ہوتی ہے جو ان سیاست دانوں اور اسلام آباد کمپنی کے درمیان طے ہو چکا ہوتا ہے ۔۔ اگر صوبایئ حکومت اور سیاستدانوں کے لیےء یہ محاورہ دن کو شرم رات کو بغل گرم استعمال کیا جاےء تو میرے خیال میں بے جا نہ ہوگا ۔۔مطلب یہ کہ جیسے دن کے وقت بیوی شرماتی ہے اور رات کو بے تکلف یہی مثال جی بی کی صوبایئ حکومت اور اسلام آباد کی ہے

More To Explore