یہ محرومی کیا رنگ لائے گی؟
ثناء غوری
کراچی کے عوام جب یہاں کے غیرمنتخب بلدیاتی اداروں کی غیرفعالیت اور غیرذمہ داری سے اس حد تک عاجز آگئے کہ گویا ایک پریشر ککر اپنے اندر مستقل برداشت کی ہوا بھر رہا ہے، ضبط کی اس ہانڈی میں ابال آیا ہی چاہتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اب حکومت کو علم ہے کہ پریشر کوکر اب پھٹا کہ تب پھٹ پھٹا۔ لہٰذا حکومت نے آنچ بند کرکے کراچی کے عوام کو ایک خوب صورت پنی میں لپیٹ کر بلدیاتی انتخابات کا تحفہ دے ڈالا۔ اس پیکٹ سے نتائج کی صورت میں جیتنے والوں کی کام یابی، ہارنے والوں کی شکست کے ساتھ صوبائی حکومت کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کرانے کا وعدہ وفا
کردینے کی فاتحانہ مسکراہٹ برآمد ہوئی…مگر نہ نکلا تو عوام کے مسائل کا حل۔
بلدیاتی انتخابات کس طرح مجبوری کی حالت میں کرائے گئے، اس کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ یہ عدلیہ کا حکم تھا جس نے صوبائی حکومتوں کے بلدیاتی الیکشن کرانے پر مجبور کردیا، ورنہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ خیر، اللہ اللہ کرکے وہ مرحلہ آیا جس کا کراچی کے عوام ایک مدت سے انتظار کر رہے تھے۔ لوگوں نے اپنی مصروفیات ترک کرکے طویل قطاروں میں کئی کئی گھنٹے لگ کر ووٹ ڈالے۔ یہ ساری مشقت محض کسی جماعت یا افراد کو جتوانے اور ہرانے کے لیے نہیں کی گئی تھی۔ ہمارے ملک کے سیاست دانوں اور حکم رانوں کی سمجھ میں اب تک یہ بات نہیں آسکی ہے کہ لوگ ووٹ دینے کے لیے باہر نکلتے ہیں تو اس کا مطلب کسی جماعت یا شخصیت سے بے لوث وفا اور محبت کا اظہار نہیں تھا، ووٹ دینا عوام کی طرف سے اپنی کسی محبوب شخصیت کو دیکھ کر ہاتھ ہلانے، نعرے لگانے یا پھول نچھاور کرنے جیسا عمل نہیں ہوتا۔ رائے دہندگان صرف اس لیے پرچیوں پر مہر لگا کر بیلٹ باکس میں ڈالتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وقت نکالتے اور ذہنی کوفت برداشت کرتے ہیں کہ انھیں امید ہوتی ان کے مسائل حل ہوں گے۔ یہی امید
کراچی کے بسنے والوں کو پولنگ بوتھ تک لے گئی تھی۔
ان انتخابات سے پہلے سندھ اور ملک کے دیگر صوبوں کے عوام کی طرح کراچی والے بھی ایک مدت تک بلدیاتی اداروں سے محروم رہے تھے۔ اس محرومی کا نتیجہ شہری مسائل کے انبار کی صورت میں نکلا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر، اجڑے پارک، کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سمیت کراچی کے شہریوں کو لاتعداد ایسے مسائل کا سامنا تھا اور ہے، جو بلدیاتی ادارے ہی حل کرسکتے ہیں۔ چناں چہ شہریوں کا پُرزور مطالبہ تھا کہ بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں تاکہ منتخب بلدیاتی قیادت آکر انھیں مسائل اور مصائب سے نجات دلائے۔ دوسری طرف صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کو کسی طور تیار نہیں تھی اور عوام کو وعدوں پر ٹرخایا جارہا تھا۔ یہ پاکستان ہی کی جمہوریت کا کمال ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری حکومتیں بلدیاتی اداروں کو برداشت نہیں کرتیں اور بلدیاتی انتخابات کروا کے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی سے گریزاں رہتی ہیں، جس کی وجہ صاف ظاہر ہے، اختیارات اور وسائل اپنے ہاتھ میں رکھنے کی خواہش، بل کہ ہوس۔ اور جب بات کراچی جیسے مالی وسائل اور امکانات سے مالامال شہر کراچی کی ہو تو اس اختیار اور اقتدار میں شرکت کیسے برداشت کی جاسکتی ہے، جب کہ یہ امکان بھی واضح ہو کہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں کراچی کے بلدیاتی ادارے حریف جماعت کے پاس چلے جائیں گے۔ بہ ہر حال، عدالت کے حکم پر انتخابات کرا تو دیے گئے، لیکن اب صوبائی حکومت شہر کے معاملات منتخب بلدیاتی قیادت کے حوالے کرنے پر تیار نظر نہیں آتی۔ اس صورت حال میں کراچی کے عوام اپنے مسائل سے پریشان اور بے حال ہیں۔ شہری مسائل بڑھتے جارہے ہیں لیکن ان کے حل کا کوئی امکان نظر
نہیں آرہا۔
کراچی ملک کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر ہے، جو ملک کا صنعتی اور تجارتی حب بھی ہے۔ چناں چہ اس شہر کے مسائل پورے ملک پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس شہر کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے 148مِنی پاکستان147 کا خوب صورت نام تو دیا گیا ہے مگر اسے کوئی اپنانے کو تیار نہیں۔ سندھ کی حکومت اس شہر، جو صوبے کا دارالحکومت بھی ہے، کے مسائل سے یوں بے نیاز رہتی ہے جیسے یہ کسی اور صوبے کا شہر ہو، رہی وفاقی حکومت
تو کون یہ بات نہیں جانتا کہ نواز حکومت عام شہری کے مسائل کے حل کے لیے فقط ایک صوبہ کو نوازتی آئی ہے، باقی ماندہ پاکستان تو یہاں وہاں کی امداد سے اور لوٹ کھسوٹ کے بعد جو رقم بچ گئی ہو اس سے ہی نواز دیا جاتا ہے اور عوام اس پر بھی شکرانے کے نوافل ادا کرتے ہیں کہ چلو کچھ تو مل گیا۔
کراچی کے مسائل سے چشم پوشی کا معاملہ اس لیے زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے کہ اس شہر کی آبادی اور دیہی سندھ کے باسیوں میں زبان کا فرق ہے۔ لہٰذا اس صورت حال کو لسانیت کی آگ بھڑکانے کے لیے بہ آسانی استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر اس میں ان آگ بھڑکانے والوں سے زیادہ قصوروار حکم راں ہیں جو اس
آگ کے لیے تیل اور ماچس فراہم کرتے ہیں، بل کہ مزید تیل چھڑک کر آگ کو بڑھاوا بھی دیتے ہیں۔
لگتا ہے کہ یہ آگ پھر بھڑکنے والی ہے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات گذشتہ دسمبر میں ہوئے تھے، لیکن اب تک منتخب بلدیاتی قیادت کو اختیارات نہیں دیے گئے ہیں، جس پر صدائے احتجاج بلند کرنا کراچی میں بلدیاتی الیکشن کا معرکہ سر کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ کا حق ہے۔ کچھ عرصہ قبل لندن میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جن کی دھوم پوری دنیا میں مچی۔ ان انتخابات میں ایک پاکستانی نژاد مسلمان صادق خان اکثریتی ووٹ لے کر میئر منتخب ہوئے اور انھوں نے اپنا منصب سنبھال لیا ہے۔ ہم کراچی کے باسی یہ سب دیکھ کر حیران پریشان ہیں کہ برطانیہ میں ایک پاکستانی اور مسلمان کے انتخاب کو تسلیم کرلیا گیا اور اس مینڈیٹ کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے گئے، لیکن ہمارے شہر میں منتخب ہونے والے اسی ملک کے شہری اور اسی مذہب کے ماننے والے ہیں جو اس ملک کی اکثریت کا مذہب ہے، پھر بھی کراچی کے شہری بلدیاتی قیادت سے محروم ہیں۔ نہ جانے یہ محرومی کیا رنگ لائے گی؟