Hunza News

صدا جب لوٹ کے آ ئی تو جانا

Share This Post

[author image=”http://hunzanews.com/wp-content/uploads/2014/07/02.png” ]ہدایت اللہ اختر[/author]

 

صدا جب لوٹ کے آ ئی تو جانا 



قارئین کالم کا عنوان ایک شعر کا مصرعہ ہے۔یہ کس شاعر کا ہے اس کا علم نہ ہوسکا ۔جس کسی کا بھی ہے یہاں اس کی تشریح اور نام مقصود نہیں بس یادوں کے دریچوں سے کچھ یادیں جھانک رہی تھیں توجہ اس طرف مبذول ہوئی تو ان دریچوں میں یہ شعر بھی ذہن میں کود گیا ۔اور اس کے ساتھ بچپن کا ایک بھولا بسیرا واقعہ بھی ان یادوں کے دریچے کے آنگن میں اتر آیا۔گلگت بلتستان کا ایک حسین علاقہ استور جس کو چھوٹا کشمیر بھی کہا جاتا ہے ۔اوہ یہ کب کی بات ہے جی یاد آیا اگست کا مہنہ ،عمر چھ سال سکول کی پہلی سیڑھی اور پاکستان کی تیرہویں سالگرہ۔۔۔یہ واقعہ بھی اسی سالگرہ سے جڑا ہوا ہے ۔شاید آپ لوگ اس واقعہ کو اتنی اہمیت نہ دیں غالبا یہ بھی کہدیں کہ رائی برابر واقعے کو را ئی کا پہاڑ بنا کے پیش کیا ہے لیکن بات یہ ہے کہ یہ واقعہ میرے لیےٗ بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔اس کا تعلق عنوان کے مصرعہ سے بھی بنتا ہے اس کی تفصیل پڑھنے کے بعد یقین ہے کہ آپ ضرور میری اس بات سے اتفاق کرلینگے کہ کبھی کبھار چھوٹے چھوٹے واقعات جو اکثر ذہن سے عنقا ہوچکے ہوتے ہیں ایسے اوقات اور دنوں میں یہ یاد آیام ذہن کے پردے میں ایسے تیزی سے گھومتے ہیں جیسے کوئی فلم چل رہی ہو اور جب یادوں کی یہ فلم چل رہی ہوتی ہے تو ایک کسک میرے اندر اٹھتی ہے ۔جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے اس کسک میں کمی آنے کے بجاے اس میں مزید بڑھو تری ہوتی جاتی ہے اور اس پہ ستم یہ کہ اب تو ٹھیسیں بھی اٹھنے لگی ہیں ۔۔ٹھیس سے ایک کہاوت یاد آئی ۔۔ٗ ٹھیس لگے بدھ بڑھے یعنی صدمہ یا نقصان پہنچنے سے انسان کی عقل بڑھتی ہے ۔ اب سوچ رہا ہوں کہ ہر سال اگست کے مہنے میں میرے اندر جو کسک اور ٹھیس سی اٹھتی ہے ۔ کیا اس سے میری عقل بڑھ رہی ہے یا کہ مایوسی؟ ۔اس فکر میں میں دبلا ہو رہا ہوں اور مجھے معلوم نہیں آپ اس کا لمی اقتباس سے کتنا اتفاق کرتے ہیں۔ پر میرا اندر کا انسان عجیب کشمکش اور امیدوں کے درمیان کا مسکن بنا ہوا ہے ۔ اور نہ جانے یہ کیفیت کب تک جاری رہتی ہے ۔کبھی کبھار مایوسی کے گہرے اور گھنے بادل بھی چھا جاتے ہیں اور امیدوں کی ساری کرنیں ایک دم سے غائب ہو جاتی ہیں اور مایوسی کی ایسی برسات شروع ہو جاتی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس برسات سے دلدل کے ایسے جو ہڑبن جاتے ہیں جہاں میں اپن�آپ کو پھنسا ہوا محسوس کرتا ہوں ایسے میں پھرسے امید کی ایک کرن کہیں سے نمودار ہو جاتی ہے جو مجھے ہاتھ پاوٗں مارنے پر مجبور کرتی ہے تاکہ اپنے آپ کو کنارے لگا سکوں اور جب کنارے پر نظرجاتی ہے تو اس کو بہت دور پاتا ہوں ۔اب یہ یادیں سہنے اور یاس و امید کی زندگی بسر کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے ۔ اب مجھے اس دیوار کی سمجھ آئی جو نہ جانے کب سے چنی گئی ہے اور نئی نسل کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ان کے گھر کے صحن کی دیوار کی دوسری طرف ان ہی کے بھائی رہتے ہیں اور وہاں جو دنیا آباد ہے وہ بہت بڑی حسین ہے جو بڑا کشمیر کہلاتی ہے۔ چھوٹا کشمیر اور بڑا کشمیر جس کے قصے آج بھی ہمارے اجداد سناتے ہیں یہی ان کا مسکن تھا کس نے

پیدا کی یہ دوریاں کس نے چنوائی ہیں یہ دیواریں ۔۔۔یہ سوال پوچھا تھا میں نے اپنی ماں سے پاکستان کی تیرویں سالگرہ کے موقعے پر جب وہ سوئی دھاگے سے اپنے ہاتھوں سے میرے لےٗ پاکستان کے چاند تارے والا بیج سلائی کر رہی تھی۔ اس وقت ٗ بیج اس دور افتادہ علاقے میں کہاں ملتے تھے۔۔میں ان کے پاس بیٹھا بڑی بے تابی اور بے چینی سے اپنے بیج کو بنتے ہوےٗ دیکھ رہا تھا اور میری ماں بھی اپنے ہاتھوں کو مشین کی طرح چلا رہی تھی اس لےٗ کہ دوسرے دن میرے سکول میں چودہ اگست کی تقریب تھی جس میں میں نے یہ بیج پہن کر جانا تھا ۔ ماضی کے چودہ اگست کو میں اپنے سینے میں سبز ہلالی پرچم کا بیج لگا کے اپنے سکول کی تقریب میں شامل ہوا تھا جس کو میری ماں نے بڑی چاہ سے بنایا یا تھا اور میں نے بھی اپنے سکول میں بڑے جوش اور ولولے سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاےٗ تھے ۔۔اور آج بھی چودہ اگست ہے ۔ میرے بیٹے کے سکول میں جشن آزادی کی تقریب ہے جس کے لےٗ دو دن پہلے ہی اس نے سبز ہلالی پرچم خریدا تھا اور اس وقت وہ بھی سکو ل میں اپنے دوستوں کے ساتھ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا ہوگا ۔۔لیکن وہ کسک اور ٹھیس اب بھی میرے اندر موجود ہے ۔۔۔۔۔۔اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ گونج بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔
صدا جب لوٹ کے آئی تو جانا
ہمارے درمیان دیوار بھی ہے

More To Explore