Hunza News

سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داری

Share This Post

[author image=”http://hunzanews.com/wp-content/uploads/2014/07/02.png” ]ہدایت اللہ اختر[/author]

سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داری

کسی بھی کام کو سر انجام دینے کے لےء ضروری ہے کہ اس کام کو انجام  تک  پہنچانے کے لےء جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اس کو سمجھا جاےء اور پھر اس کام  کو اس کے انجام تک پہنچانے کے لےء جو عوامل درکار ہوتے ہیں  ان سے پوری طرح سے استفادہ حاصل کر کے ذمہ داری کے ساتھ اس کام کی تکمیل  کی جاےء اور جب ہم سوشل میڈیا کے حوالے سے بات کریں تو  آج کے اس دور میں  جہاں ہر کویئ  شخص  اس میڈیا کا دلدادہ اور اس کی محبت میں گرفتار ہے  اور اس سلسلے میں ہمیں  جو  نمایاں  چیز نظر آتی ہے وہ ہے فیس بک  اور اس  فیس بک میں بہت سارے دوست  ہوتے ہیں   جسے  ایف بی فرینڈز کہا جاتا ہے  ان مین سے کچھ بہت ہی قریبی رشتہ دار  یعنی بیٹا بیٹی بیوی بہن پھوپھی تایا تایئ غرض جو بھی رشتہ ہے وہ آپکا ایف بی فرینڈز ہی  کہلاتا ہے جن کو آپ بعد میں درجہ بندی کرتے ہیں  اس سوشل میڈیا کے مطابق  آپکے ساتھ شامل ہر بندہ چاہےء وہ آپکا جاننے والا ہو یا  نہ جاننے والا وہ آپکا دوست ہے ۔۔ممکن ہے کہ  آنے والے وقتوں میں گوگل اس کا کویء حل نکالے تاکہ  رابطہ کرنے والوں کو چاٹ میں یا مکالمے میں کویء اسانی پیدا ہو سکے۔۔۔۔ایک دوسری بات جو اس سوشل میڈیا میں  بہت ہی زیادہ عام ہے وہ یہ کہ جعلی ناموں سے  آیء ڈیز جس کی وجہ سے کیء سادہ لوح  ان کے دام محبت یا دام چالاکی میں آکر  سب کچھ ہار جاتے ہیں ۔۔سوشل میڈیا کے کمالات تو بہت ساری ہیں  جن کو اگر  چھیڑا جاےء  تو ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ  اور چٹخارے والی ہیں  اور کچھ چیزیں ایسی نظر سے گزر جاتی ہیں کہ بے چاری نظریں بھی شرما  کر جھکنے پر مجبور ہو جاتی ہیں  اس بات کا  بھی شکر ہے کہ اب بھی ان نظروں میں  شرم و حیا باقی ہے  لیکن یہاں چٹخارے والی بات سے پرہیز کرتے ہوےء ایک اور بات کی طرف دھیان  دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ  نوجوان نسل جو اس کو انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہی سمجھنے لگی ہے اس کے علاوہ ان کا ذہن  ابھی  تک  اس سوشل میڈیا کے بہت سارے مثبت پہلوں کی طرف  مڑا ہی نہیں  ان کے نزدیک بس  اس میڈیا سے اپنی اور یار دوستوں اور گھریلو تصاویر  پوسٹ کرنا ہی ہوتا ہے  اور کچھ نہیں اور جب تک ہماری نوجوان نسل   کا یہ رویہ برقرار رہیگا  اس وقت تک  اس میڈیا سے  چٹخاروں کے سوا ہمیں کچھ ہاتھ نہیں  آئیگا ۔۔۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر ادمی کا مزاج مختلف ہوتا ہے  اور  یہ بھی ممکن نہین کہ  کہ کسی کے ایک لفظ سے  دوسر ا  ایک دم فرشتہ بن جاےء اور معاشرے میں دودھ کی نہریں بہہ جائیں ہمارے اس میڈیا میں بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میان بھی سبحان اللہ نظر آتے ہیں  اس میڈیا میں خبروں کی ترسیل سے لیکر تحقیق کر کے  عوام تک اچھی خبریں اور معلومات کے علاوہ اصلاح  کے لےء اپنی محنت کو  بروےء کار لاتے ہیں  جو صحافی،  دانشور اور ادیب کہلاتے ہیں لیکن اکثر یہ دیکھا  گیا ہے کہ  یہ لوگ  اجتماعی سوچ سے زیادہ انفرادی سوچ کو لیکر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں  ان کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ  کویئ ان پر تنقید نہ کرے اور نہ کویء اختلاف کرے بس  وہ جو کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے   اور ان کے کہے ہوے الفاظ  یا نظریہ کو سچ ہی مان لیا جاےء  ایسے لوگ اپنے اوپر تعمیری تنقید برداشت نہیں  کرتے ۔۔کچھ حضرات  ایسے ہیں کہ ایک طرف  تو لوگوں کو امن بھایئ چارے اور دوسرے اچھے کاموں کا لیکچر دیتے دیتے نہیں تھکتے  لیکن دوسری طرف سے ان لوگوں نے اپنے  ایسے ایسے پیج بنا رکھے ہیں کہ  توبہ ہی بھلی اپنے فرقے  کا پرچار اور ایسا زہر اللہ اللہ۔۔غرض اس میڈیا میں بھانت بھانت کے لوگ اور بھانت  بھانت  کے جعلی دوست اور بھانت بھانت  کے  نغمے گانے والے بلبلوں  کی  ایک انگنت اقسام آپ کو ملے گی ۔۔۔  اس سوشل میڈیا میں کسی کی خفگی کا برا بھی نہیں منانا چاہے  بس ان حضرات سے جو اپنے آپ کو  انٹلیکچوئل ،ادیب اور دانشور،اورصحافت کے علمبردار سمجھتے ہیں  ان سے اتنی گزارش ہے کہ وہ اپنی صحافت، دانشوری کو   فرقہ بندی اور  اور مذہبی مدرسوں اور علاقایئ والی دانشوری نہ بنائیں بلکہ  اس کی حدود کو وسعتوں کی اس بلندی معراج تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہےئ جس کی یہ متقاضی ہے  یہی وقت کی ضرورت بھی ہے اور  معاشرے کے سدھار کے لے  نہایت  ضروری بھی  اور  ہمارے دانشور طبقے نے بھی اپنی روش نہ بدلی تو  اس قوم کی ناوء جو پہلے ہی چٹخاروں اور غیر اخلاقی   طوفانوں سے ہچکولے کھا رہی ہے بجاےئ سمبھلنے  کے کہیں ڈوب ہی نہ جاےء

More To Explore