[author image=”http://hunzanews.com/wp-content/uploads/2014/05/Sana.jpg” ]ثناء غوری[/author]
جنسی تشدد جس پر بات کرناممنوع ہے
ہمارے ملک میں بچوں کے ساتھ زیادتی ایک چُھپا ہوا بلکہ اگر کھلے لفظوں میں کہا جائے تو ایک چھپایا جانے والا مسئلہ ہے۔
جنسی تشدد ایک ایسا موضوع ہے جس پر عام طور پر گفتگو کرنا ہمارے معاشرے میں برا تصّور کیا جاتا ہے۔
دنیا کا حسن شرم و حیا سے قائم ہے، لیکن اگر آپ کی بے جا شرم و حیا آپ کے بچوں کی زندگی تباہ کرے، تو یہی قابل تعریف خوبی بدترین غفلت کہلائی جا سکتی ہے۔
یہ بات کم اہم ہے کہ ہمارے ملک میں کتنے بچے زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ کا بچہ اس کا شکار نہ ہو اور ایسا تب ہی ممکن ہے، جب آپ اس مسئلے سے آنکھیں چُرانے کی بجائے اِسے پوری طرح سمجھیں۔
پاکستان کی تقریباً چالیس فی صد آبادی پندرہ سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ آبادی کا یہ حصہ ہمارا مستقبل اور ہماری چاہتوں کا مرکز ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اِن بچوں کو جہاں دیگر سیکڑوں مسائل اور خطرات کا سامنا ہے، اِن میں ایک گمبھیر مسئلہ بچوں کا جنسی استحصال بھی ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کے حل کرنے میں والدین، اساتذہ، حکومت سب کے سب مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یوں اس مسئلے کے حل کا بھاری بوجھ اس کا شکار ہونے والے بوجھ بچوں ہی پر ڈال دیا جاتا ہے، جو زندگی کے ابتدائی مرحلے میں سادہ تر مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
یہ مسئلہ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ مددگار ہیلپ لائن کے بانی چیئرمین ضیاء احمد اعوان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اس سنگین مسئلے کے حوالے سے ان کی تنظیم کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری تا اکتوبر پاکستان میں، ’’302 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ 407 پر جنسی حملے ہوئے 547 تشدد کا شکار ہوئے۔‘‘ بردہ فروشوں کا شکار ہونے والے (204)، گُم شدہ (260) اور اغواء شدہ (30) بچے اس کے علاوہ ہیں۔
شہری حقوق کے کارکنوں، ماہرین ِ نفسیات اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے مرتب کردہ جائزے کے مطابق پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور ہر چار میں سے ایک بچی جب کہ ہر چھ میں سے ایک بچہ اَٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اِس کا نشانہ بن رہا ہے۔ لیکن ماہرین نے ساتھ ساتھ متنبہ کیا ہے کہ رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے صرف اندراج شدہ واقعات پر مبنی ہیں، جب کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ماہرین نے اس امر پر افسوس کیا ہے کہ جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کی درست تعداد سرے سے دستیاب ہی نہیں، کیوں کہ سماجی شرم و حیا کی وجہ سے اکثر واقعات سامنے نہیں لائے جاتے، چنانچہ اس جرم کے مرتکب درندے سزا سے بچ جاتے ہیں۔ جائزہ رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی بچوں کے ذہنوں پر ایسے نفسیاتی زخم چھوڑتی ہے، جس سے اِن کی شخصیت نہ صرف جارحانہ ہو جاتی ہے بلکہ وہ ذہنی تنائو کا شکار ہو کر منشیات اور بعض اوقات خودکشی کا راستہ اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
لڑکیوں کے جنسی استحصال کا زیادہ خطرہ (72 فی صد واقعات) افرادِ خانہ رشتے دار اور قریبی جاننے والے جیسے ہم سائے وغیرہ سے ہوتا ہے، جب کہ لڑکوں کے لیے زیادہ خطرناک (45 فی صد واقعات) ان کے اساتذہ اور اجنبی افراد ثابت ہوتے ہیں، جب کہ معاشرے کے دیگر افراد جن سے بچوں کا تعلق رہتا ہے، جیسے دکان دار وغیرہ لڑکے لڑکیوں دونوں کے لیے یکساں طور پر خطرے کا باعث ہیں۔
ایک حقیقت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے موقعے پر جہاں کہیں بچوں نے مزاحمت کی یا شور مچایا تو مجرم وہاں سے کھسک لیے اور یوں معاملہ چھیڑ چھاڑ سے آگے نہیں بڑھا۔ گویا اگر بچے یہ جانتے ہوں کہ ایسے موقعے پر انھیں کیا کرنا ہے تو زیادتی کا نشانہ بننے سے محفوظ رہتے ہیں۔
بیان کیے گئے تمام تر تلخ اور بھیانک حقائق جاننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ اپنے بچے کو کیسے جنسی استحصال سے محفوظ رکھیں۔ اِس سلسلے میں والدین اور بچے کا باہمی رابطہ سب سے موثر اور اہم قدم ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے بچے سے جنسی زیادتی کے بارے میں گفتگو کریں۔ یقیناً والدین کے لیے ایسا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے، لیکن اگر وہ اسے بچے کے لیے ذاتی حفاظت کا ایک سبق تصور کریں (جیسے آپ اِسے آگ سے دور رہنے یا سڑک پار کرنے کی ہدایت دیتے رہتے ہیں)۔
تو انھیں محسوس ہو گا کہ اس موضوع پر سیدھے سادے، حقیقت پسندانہ انداز میں بات کی جا سکتی ہے۔تمام موضوعات ایک ہی نشست میں نمٹانے کی کوشش نہ کیجیے، بچے سے جنسی زیادتی اور ذاتی حفاظت کے موضوع پر ہونے والی گفتگو ایک مستقل جاری و ساری سلسلہ ہونا چاہیے۔ اِس گفتگو کو خواہ مخواہ اہمیت دینے کی کوشش نہ کیجیے۔ سرسری اور بے تکلفانہ انداز میں کسی ایسے وقت بات کیجیے جب بچہ خود کو محفوظ اور مطمئن محسوس کر رہا ہو۔بچے سے گفتگو کسی بھی وقت کی جائے مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گفتگو میں کیا کہا جائے۔ وہ خیالات جو بچے تک پہنچانا ضروری ہیں، یہ ہیں:
٭ تم نہایت خاص اور اہم ہو۔
٭ تمھارا بدن تمھاری ملکیت ہے۔ بدن کے بعض حصّے تمھارے پرائیویٹ حصّے ہیں۔ اگر کوئی انھیں چھونے کی کوشش کرے تو تمھیں ’انکار‘ کا پورا حق ہے۔ میری طرف سے تمھیں ایسے موقعے پر انکار کی پوری اجازت ہے۔ خواہ تمھیں چھونے والا کوئی بھی آدمی ہو، خواہ تم اُسے جانتے ہو۔
٭ اگر کوئی تمھیں پریشان کرے تو مجھے ضرور بتائو میں وعدہ کرتا /کرتی ہوں کہ میں تمھاری بات پر اعتبار کروں گی/کروں گا۔ میں بالکل بھی ناراض نہیں ہوں گا/گی۔
اس مشکل کام کو انجام دینے سے آپ کا بچہ زیادہ محفوظ اور زیادہ بہتر شخصیت کا مالک ہو گا۔ صرف اس کام کی ابتدا کرنا مشکل ہے، اور اس کی بنیادی شرط بچے اور والدین کے درمیان خوش گوار تعلق ہے۔ اپنے بچے سے اس طرح کا تعلق رکھیں کہ وہ اپنی بات، اپنے روزانہ کے معاملات اور اپنے مسائل کے حل کے لیے آپ سے گفتگو کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہ کرے۔ وہ اس اعتماد کے ساتھ آپ سے بات کرے کہ آپ اس کی بات سنیں گے۔
مختصر یہ کہ ایسا تعلق قائم ہونے کے بعد ہی آپ اپنے بچے کو کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی بھی شخص چاہے وہ جاننے والا ہو یا اجنبی، اگر تمھارے جسم کو چھوئے یا پھر تم سے گندی باتیں کرے۔یہ تحریر پڑھ کر یا ایسے کسی واقعے کے بعد اپنے بچے کو چوبیس گھنٹے اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنے کا خیال دل میں نہ لائیں۔ بچے کو بے انتہا احتیاط سے رکھنے اور اسے معاشرے سے کاٹ کر رکھ دینے سے یہ تو ممکن ہے کہ آپ اپنے بچے کو درندگی کا شکار ہونے سے بچالیں (اگرچہ اعداد و شمار کے مطابق گھر اس حوالے سے انتہائی غیر محفوظ جگہ ہے) لیکن یہی بچہ بڑا ہو کر تمام زندگی معاشرے سے اپنا تعلق قائم کرنے میں مشکلات کا شکار رہے گا جس کا مطلب ہے زندگی کے ہر موڑ پر ناکامی ! لہذا بچے کو شیشے کی گڑیا بنانے سے بہتر ہے کہ اسے اپنا دفاع اور ہر طرح کے مشکل حالات سے مقابلہ کرنے کی تربیت دیں۔
یوں وہ نہ صرف ایسے حادثات سے بڑی حد تک محفوظ رہے گا، بلکہ ایسے کسی حادثے کی صورت میں اس کی شخصیت کو کم سے کم نقصان پہنچے گا۔ اور اس فطری طریقہ تربیت سے بچہ بڑے ہو کر بھی ہر مشکل کے وقت اپنے مددگاروں کو ڈھونڈنے کے بجائے اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل ہو گا۔ یعنی ایک پر اعتماد شخصیت اور کام یاب انسان۔